Sticker ka zariy Sugar ka ilaj |How to check sugar level at home with a sticker
Is Video ma app Sticker ka zariay sugar ka ilaj Kar saktay han.ya sticker app hath par Ribbon ki tarhah bandh lan aur is ma mujood chotay chotay circuit app aky khoon ma blood Sugar ki miqdar maloom kar saktay han.
کرنے کے سلسلے میں عینک کے ساتھ ساتھ اب لینس
کا استعمال بھی کیا جانے لگا ہے ۔ ماہرین چشم کا کہناہے کہ کنٹیکٹ لینز کے استعمال
سے انسانی بصارت کے کئی مسائل حل ہوگئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کنٹیکٹ لینزکمزور
بینائی کو بہتر کرنے کا نظر نہ آنے والا ایک عمدہ طریقہ ہے ، لیکن اگر آپ لینز
استعمال کرتی ہیں تو پھر آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ان کے بارے میں اچھی اور
درست معمولات ہوں ۔ کیونکہ بعض اوقات ذرا سی بے احتیاطی اور لاپروائی کی وجہ سے
کچھ مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کوکانٹیکٹ لینز کے بارے میں چند ایسی باتیں
بتانے والے ہیں جو شاید آپ اس سے پہلے نہیں جانتی ہوں گی ۔
۱۔دن بھر استعمال کے بعد
رات کو لینز خشک کیوں ہوجاتے ہیں؟
لینز استعما ل کرنے والے اکثر افراد کو یہ شکایت رہتی ہے کہ دن بھر
استعمال کے بعدرات کے وقت ان کے لینزخشک ہوجاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ہے نیند ۔ماہرین
کہتے ہیں کہ کنٹیکٹ لینز دن بھر آنکھوں کے قدرتی نمکین پانی میں بھیگے رہتے ہیں ۔
رفتہ رفتہ یہ پانی ہمارے آنکھوں سے بخارات کی شکل میں اڑ جاتاہے ۔ بچ جانے والا
نمک ہمارے لینز پر رہ جاتا ہے ۔ یہ نمک آنکھوں کے لیے تو اچھا ہوتا ہے مگر ا س نمک
کی زیادتی سے ہمارے لینز متاثرہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رات کے وقت وہ ہمیں خشک
محسوس ہونے لگتے ہیں ۔
۲۔لینز لگا کر رونے سے آنکھیں کیوں دُکھتی ہیں؟
یہ بات شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ رونے کے باعث خارج ہونے والے پانی
میں جتنا نمک ہوتا ہے ،اس سے زیادہ نمک ہماری آنکھوں میں موجود پانی میں ہوتا ہے
۔لیکن پھر بھی رونے سے آنکھوں میں نمک کی ضروری مقدار کم ہوجاتی ہے ۔اور یوں جب ہم
روتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں موجود نمک کا توازن بگڑنے لگتا ہے ۔ ایسی صورت میں
ہمارے لینز پر رات کے وقت نمک کی مقدار اتنی نہیں ہوتی ،جتنی عام حالات میں باقی رہ
جاتی ہے ،ایسے میں آپ نے اگرلینز پہن رکھے ہیں تو اس سے صورت حال اور خراب ہوجاتی
ہے ، اور لینز تکلیف کا باعث بھی بن سکتے ہیں ۔
۳۔ہائی ٹیک لینز دیر تک استعمال کے لیے موضوع ہیں
کنٹیکٹ لینز استعمال کرنے والوں کی جانب سے مختلف شکایات کے پیش نظر اس
شعبے میں کی جانے والی مسلسل دس سال کی تحقیقات کے بعد ماہرین نے لینز کی ایک نئی
قسم متعارف کرائی ہے ۔ یہ لینز صرف ایک تہہ کے بجائے تین تہوں
پر مشتمل ہیں ۔ یہ اپنی نوعیت کے پہلے اور منفردترین لینز ہیں ۔ ان کی
پہلی دو تہہ تو عام لینز کی طرح ہوتی ہے مگرتیسری اور درمیانی تہہ
کی بنی ہوتی ہے ۔
درمیانی تہہ میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ عام روایتی لینز کے
مقابلے میں ان میں زیادہ دیر تک نمی باقی رہتی ہے اور یہ آسانی سے خشک نہیں ہوتے ۔
۴۔روزانہ بدلے جانے والے لینز بہترین ہیں
مارکیٹ میں مختلف اقسام کے کنٹیکٹ لینز دستیاب ہیں ۔ ان میں روزانہ ،
ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر تبدیل کئے جانے والے لینز شامل ہیں ۔ ماہرین کے
نزدیک روزانہ تبدیل کئے جانے والے لینز مناسب ہیں ۔ انہیں دن بھر استعمال کرکے رات
کے وقت پھینک دیا جاتا ہے ، چونکہ انہیں کسی کیس میں رکھ کر اگلے دن کے لیے محفوظ
کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے ان میں بیکٹیریا کا خطرہ بھی نہیں رہتا ہے ۔ یہ
بیکٹیریا آنکھوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ روزانہ بنیادں پر لینز
تبدیل کرنے والوں کی آنکھوں میں انفیکشن کا خطرہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔
۵۔کنٹیکٹ لینز کا معیاری ہونا ضروری ہے
کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خوبصورت نظر آنے کے لئے رنگین کنٹیکٹ لینز
کا استعمال کرتے ہیں جس کی قیمت السر، بصارت کی کمی یا بینائی سے مکمل محرومی کی
صورت میں ادا کرنا پڑسکتی ہے ۔ معیاری کنٹیکٹ لینز استعمال کرنے والے بھی احتیاط
نہ کرنے کی وجہ سے مختلف سنگین مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔آنکھ میں ایسی چبھن
محسوس ہو کہ جیسے کوئی چیز آنکھ کے اندر چلی گئی ہے یا کنٹیکٹ لینز آنکھوں میں
لگانے سے قوت برداشت ختم ہو جائے تو سمجھ لیں آپ کی آنکھوں نے کنٹیکٹ لینز کو قبول
کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فوراً لینز اتاردیں۔ اگر علامات جاری رہیں تو آئی سرجن سے
رابطہ ضروری ہے۔
دانتوں کے درد کا فوری علاج بہت ضروری ہے، کیوں کہ اس درد میں بندہ
بری طرح تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل طریقوں سے دانتوں کے درد کا علاج آپ اپنے
گھر میں بھی کر سکتی ہیں۔
یکنگ سوڈا روئی کا ایک چھوٹا ٹکڑا لیں اور اسے گرم پانی میں
بھگوئیں، پھر اس کے بعد اسے بیکنگ سوڈے میں ڈبوئیں۔ جب آپ دیکھیں کہ روئی
میں اچھی طرح سے بیکنگ سوڈا لگ گیا ہے، تو اسے دانتوں میں درد والی جگہ پہ لگائیں۔
یہ آپ کے درد کو دور کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ آپ ایک گلاس گرم
پانی میں دو چمچے بیکنگ سوڈا ڈال کر اچھی طرح سے کلی کریں، اس سے بھی آپ کے دانت
کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔
لونگ لونگ میں دانتوں کے درد کا قدرتی علاج موجود ہے۔ دو سے
تین عدد ثابت لونگ کواپنے دانتوں کے اُس حصے میں رکھیں، جہاں درد ہے اور تب تک
رکھے رہنے دیں، جب تک تکلیف دور نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ لونگ کا تیل بھی دانت کے
درد سے آرام دیتا ہے۔
’ٹی بیگ‘ بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ٹی بیگ دانتوں
کے درد کو دور کرنے میں خاصا معاون ہے۔ ایک عدد گرم ٹی بیگ کو منہ میں رکھیں، مگر
خیال رہے کہ ٹی بیگ بہت زیادہ گرم نہ ہو کہ آپ کا منہ جل جائے۔
برف کا ٹکڑا برف سے بھی آپ کے دانتوں کی تکلیف کا علاج ممکن ہے۔ ایک
عدد برف کا ٹکڑا لیں اور اُسے کسی چھوٹے سے کپڑے میں رکھ کے تھوڑا موٹا موٹا کُوٹ
لیں اور پھر اس پوٹلی کو اپنے گالوں پہ رکھ کے ٹکور کریں۔ آپ کو خود درد میں کمی
محسوس ہو گی۔
گرم کپڑا تولیے یا کسی بھی کپڑے کو استری کی مدد سے گرم کر لیں،
یاد رہے کہ کپڑا بہت زیادہ گرم نہ ہو جائے، جو آپ کی جلد کے لیے ایک مصیبت کھڑی
کر دے۔ کپڑے کو گرم کر کے اپنے گالوں پہ آہستہ آہستہ سینکائی کریں، درد میں کمی
آئے گی۔
کالی مرچ دانت کے درد میں ثابت کالی مرچ منہ میں رکھنے سے بھی
کافی فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نمک اور کالی مرچ کو پیس کے منہ میں ڈال لیں،
اس سے بھی فائدہ ہوگا۔
کھیرا ایک کھیرے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں اور اسے
دُکھنے والی داڑھ یا دانت کی جگہ پہ رکھیں۔
پیاز پیاز کا ایک باریک ٹکڑا کاٹیں اور اسے دانتوں پہ لگائیں،
درد ختم ہو جائے گا۔
آلو آلو کو بھی دانتوں کے درد کو دور کرنے کے لیے استعمال
کیا جاتا ہے۔ آلو کا ایک چھوٹا قتلا لیں اور اسے درد والی جگہ پہ رکھیں۔
پودینے کی پتیاں پودینے میں بھی دانتوں کے درد کا قدرتی علاج پایا جاتا
ہے۔ پودینے کی پتوں کو چیونگم کی طرح چبائیں، تکلیف ختم ہو جائے گی۔
لہسن کے جوے ایک لہسن کا جوا اپنے منہ میں رکھیں یا پھر لہسن کو پیس
کے اس پہ نمک لگا کے بھی منہ میں رکھا جا سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں تکلیف سے نجات
ملتی ہے۔
یوں تو ہر ایک کو کبھی نا کبھی ایک آدھ چھینک آہی جاتی ہے۔ لیکن
اگر کبھی اچانک چھینکیں آنا
شروع ہوں اور رکنے کا نام نہ لیں تو طبیعت کو بہت
ناگوار گزرتا ہے۔ چھینکیں یوں ہی نہیں آتیںان کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ ہوتی ہے۔ ہماری ناک میں موجود باریک بال باہر سے آنے والی دھول
کو روک لیتے ہیں اور اس کو باہر نکالنے کے لیے چھینک آتی ہے۔اگر آپ کو اچانک
چھینکیں شروع ہو جائیں تو آپ اس کی وجہ جاننا ضرور چاہیں گے۔
موسمی اثرات:
چھینک آنے کی ایک وجہ الرجی اور موسمی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ
موسم سے الرجک ہوتے ہیں ان کو لمبے عرصے تک چھینکیں آتی رہتی ہیں۔ موسم کی تبدیلی
کے ساتھ ہی کھانسی، چھینکیں، سینہ جکڑنا اور آنکھیں لال ہو جانا موسمی الرجی کی
نشانی ہیں۔
نزلے کی شروعات:
اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ نزلہ سردیوں کی بیماری ہے۔لیکن ایسا نہیں
ہے نزلہ سال کے کسی حصے میں بھی ہوسکتا ہے۔ اور چھینکیں نزلے کی علامات میں سے ایک
ہیں۔ چھینکیں آنے کی سب سے عام وجہ نزلہ ہوتا ہے۔
جانوروں کے جسم سے جھڑنے والی خشکی:
اکثر لوگ بچپن میں پالتو جانوروں سے الرجک ہوتے ہیں اور بعض اوقات
یہ الرجی بڑے ہونے پر بھی رہتی ہے۔ یہ الرجی جانوروں کے جسم سے جھڑنے والی ایک طرح
کی خشکی سے ہوتی ہے۔ جس کی الرجی سے چھینکوں کا دورہ پڑ جاتا ہے ۔ اگر آپ کو یہ
چھینکیں اپنے پالتو جانور کے کمرے میں شروع ہوتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو
اس سے الرجی ہو رہی ہے جس کو دور کرنے کے لیے ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے۔
ٹھنڈ سے نکل کر گرمی میں آجانا:
درجہ حرارت میں بہت زیادہ تبدیلی بھی چھینکوں کا باعث بنتی ہے ۔
اگر باہر نکلنے پر چھینکیں شروع ہو جائیں تو یہ کسی الرجی کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔
لیکن اگر یہ چھینکیں ایک یا دو منٹ بعد رک جائیں تو اس کی وجہ ٹھنڈے سے گرم موسم
کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ ایسا خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ ائر کنڈیشنڈ کمرے
سے باہر گرمی میں آجائیں۔
سگریٹ کا دھواں:
سگریٹ کا دھواں بھی ناک میں سوزش پیدا کرکے چھینکوں کا باعث بنتا
ہے۔ اگر آپ مستقل طور پر اپنے کمرے یا کسی جگہ پر ہوں جہاں سگریٹ پی جا رہی ہو تو
اس کا دھواں آپ کو الرجک کرتا ہے۔
مصالحوں سے الرجی ہونا:
اگر آپ کو کچن میں یا کچھ کھاتے ہوئے مستقل چھینکیں آتی ہیں تو
اس کا مطلب ہے کہ کسی مصالحے کی وجہ سے آپ کی ناک میں سوزش ہورہی ہے۔ بعض اوقات
بہت زیادہ مصالحہ دار کھانا کھا کر بھی چھینکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کو زیادہ عرصے تک مستقل چھینکیں آتی رہیں تو اس
کی وجہ جاننے کے لیے الرجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ وہ اس سے متعلق ٹیسٹ کرکے صحیح وجہ
بتا سکیں۔ اپنی چھینکوں کی صحیح وجہ جاننے کے بعد ہی آپ ان سے نجات پا سکتے ہیں۔
جگر جسے عربی زبان میں کبد اور انگریزی میں لیور کہتے ہیں جسم کا
اہم ترین عضو ہے۔ جوانی میں جگر کا وزن تین سے چار پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ یہ سارے جسم
کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے۔ اگر اس عضو میں کوئی خرابی واقع ہوتی ہے تو جسم کی
مجموعی صورتحال میں بھی خلل و اقع ہوجاتا ہے۔ جگر کی خرابی سے معدہ کے افعال میں
بھی ضرور خلل پڑتا ہے۔
امراض جگر کی علامت
جگر کی بیماری شروع ہوتے ہی کپکی سے بخار آتا ہے بعد میں بخار تو
اُتر جاتا ہے لیکن جگر کی بیماری قائم رہتی ہے۔ بیماری جب آہستہ آہستہ پرانی
ہوجاتی ہے تب جگر سخت اور پہلے سے بڑا ہوجاتا ہے جگر کی جگہ کو دبانے سے درد ہوتا
ہے۔ زبان سفید، سر درد ، کمزوری، خون کی کمی ، بدہضمی ، قبض اور پیٹ میں گیس ہونا
اس کی اہم علامت ہیں۔
امراض جگر سے بچنے کی احتیاطی تدابیر
۱۔ زیادہ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں۔ ۲۔ زیادہ گوشت یا تیز مصالحہ دار غذاؤں سے احتیاط کریں۔ ۳۔ ہر قسم کی نشہ آور چیزوں سے پرہیز کریں۔ ۴۔ دھوپ میں دور دراز کا فاصلہ طے کرکے پانی فوراً نہ پئیں۔ ۵۔ برف کا کثرت سے استعمال کرنا جگر میں ورم پیدا کرتا ہے۔ اس سے
جتنا ممکن ہو گریز کریں۔ ۶۔ غلیظ غذاؤں کا بکثرت استعمال جگر کے رنگ کو بدل دیتا ہے لہٰذا
ایسے کھانوں سے دور رہیں۔ ۸۔ جگر کے مریض کو گھی اور چینی بہت کم کھانی چاہئیے۔
امراض جگر کے آسان علاج
مناسب
غذا استعمال نہ کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی صورت میں جگر اور معدہ
صنیف ہوجاتا ہے۔اس مرض میں مفید چند گھریلو ٹوٹکو ں کو اپنا کر آپ اس مرض سے نجات
حاصل کر سکتے ہیں۱۔
جگر کے تمام امراض میں خصوصاً یرقان (پیلا یا کالا) میں یہ نسخہ انتہائی موثر اور
مجرب ثابت ہوا ہے۔ شلجم کا سنی ایک تولہ چھلکا ہڑ ہڑ زرد ایک تولہ مھٹی ایک تولہ کوزہ مصری تین تولہ اسے باریک پیس کر صبح، دوپہر ، شام دو دو گرام خالی پیٹ
استعمال کریں۔ اس کے ساتھ عرق کا سنی اور عرق مکو ایک ایک کپ پئیں۔ کھانے کے ساتھ
موٹھی کا استعمال ضرور کریں۔ ۲۔ ضعف جگر کے لئے شہد ڈھائی تولہ گائے کے دودھ شامل کرکہ ماستعمال
کرنا مفید ہے۔ ۳۔ جگر کے مریضوں کو بار بار گاجر کھانی چاہئیے۔ فرانس میں جگر کی
بیماریوں کے لئے گاجر کو مفید سمجھا جاتا ہے۔ ۴۔ یرقان میں آلو بخارہ، املی، دھنیا، نیلو فر نصف نصف چھٹا نک رات
کو دو سیر پانی میں بھگو کر رکھ دیں۔ یہ پانی دن میں تین بار اچھی طرح ملا کار اور
چھان کر پینا بہت مفید ہے۔ ۵۔ مولی کے سبز پتوں کا پانی صبح کے وقت پینا ہر قسم کے یرقان پیلیا
کے لئے نہایت فائدہ مند ہے۔ ۶۔ دھنیا، سونٹھ اورسیاہ نمک کا چورن دن میں تین بار استعمال کرنے
سے بدہضمی دور ہوتی ہے اور جگر کو قوت اور چستی حاصل ہوتی ہے۔
جگر کے مریضوں کو پھلوں کا رس ، سلاد ، ہری سبزیوں کا رس ، ترش
پھل، اننا س، موسمی نارنگی ، شہد ، کھجور، کشمش کو اپنی روز مرہ کی غذا کا حصہ
بنانا چاہیے۔ تلی ہوئی چیزیں ، چائے ، کافی تیز مصالحہ والی اشیا ء اور تمبا کو
نوشی بند کر دینی چاہئیے۔شراب جگر کے مریض کے لئے زہر ہے۔
جگر کے امراض کا روحانی علاج
آئیے شمس الدین کی کتاب سے ماخوذ جگر کے امراض میں مفید روحانی
علاج پر نگاہ ڈالیں:
۱۔ بھنے ہوئے چنوں پر اول ، آخر ایک بار درود
شریف کے ساتھ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ایک ایک بار یا تین تین بار پڑھ کر دم
کرلیں اور تھوڑے تھوڑے کھاتے رہیں۔ یہ عمل (یرقان) کے لیے انتہائی مجرب ہے۔
بواسیر کے مریض آپ کو در بدر گھومتے نظر آئیں گے اور بہت ہی کم
لوگ ایسے ہوں گے جو
اس موذی مرض سے نجات حاصل کر سکے ہوں مگر میں آپ کو ایک گوہر
نایاب نسخہ دے رہاہوں جس کی تصدیق نبی پاک ؐ کی اس حدیث پاک سے ہوتی ہے۔
” نبی پاک ؐ کے پاس انجیروں کا ایک تھال بطور تحفہ آیا
آپ ؐ نے اپنے اصحاب ؓسے فرمایا” اگر میں کہتا کہ جنت سے ایک کھانا آیا ہے تو میں
کہتا یہ انجیر ہے یہ بواسیر کو دور کرتی ہے اور درد نقرس کے لیے مفید ہے”۔ نقرس چھوٹے جوڑوں کے درد جسے عام زبان میں گھنٹیا کہتے
ہیں کی بھی اکسیر دوا ہے اور خاص طور پر یورک ایسڈ کو بھی کم کرتی ہے۔نقرس کے لیے
ایک سے تین انجیر ہر کھانے سے پہلے یا بعد میں کھا لیں چھوٹے جوڑوں کے درد کے
علاوہ یورک ایسڈ کو بھی ختم کرتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے میرے پاس ایک فوجی بھائی آئے
جو کہ عرصہ تین چار سال سے بواسیر کے مرض میں مبتلا تھے ۔ ان کے بقول فوجی ڈاکٹروں
کے علاوہ بہت سے حکیموں سے بھی علاج کرواچکے ہیں ۔مگر مرض کم ہونے کے بعد دوبارہ
لاحق ہو جاتا ہے۔
میں نے فوجی بھائی سے کہا کہ آپ شہد خالص کی ایک بوتل کا انتظام
کریں تو اس نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ شہد تو میں آپ کو اپنے گائوںسے لا
کر دے سکتا ہوں۔۔۔ چند دنوں کے بعد فوجی بھائی نے شہد کی ایک بوتل مجھے دی۔۔۔ میں
نے کہا کہ دو تین دن کے بعد دوالے جائیں ۔ اس کا نسخہ درج ذیل ہے۔
شہد (خالص) : 1/2 کلو انجیر زردتازہ :
1/2 کلو
انجیر کو کھرل میں ڈال کر ہلکا ہلکا کوٹ لیںاور یک جان کر لیں
زیادہ زور سے نہ کوٹیں ۔ اور اس دوران تھوڑا شہد اس میں شامل کرتے جائیںجب1/2 کلو شہد اس میں شامل ہو جائے گا تو ایک معجون سی تیار ہو
جائے گی۔
مقدار خوراک ایک بڑا چمچ صبح دوپہر شام کو پانی سے ، اور گرم مزاج
لوگ دودھ سے کھا لیں ۔ اس کو بہت اچھی طرح چبا کر کھائیں تو فائدہ کرتی ہے۔فوجی
بھائی جب معجون کی ایک بوتل کھا چکے تو کہنے لگے میں نے اپنے فوجی ہسپتال کے بڑے
ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تو ڈاکٹر صاحب کے بقول اب تو مسے (موکے) ختم ہو چکے ہیں ۔
میں نے فوجی بھائی کو مشورہ دیا کہ آپ تین چار ماہ بعد خالص شہد کی ایک بوتل لے
کر میرے پاس آئیںاور یہ دوا استعمال کریں۔ انشااللہ یہ مرض مکمل طور پر ختم ہو
جائے گا۔تو اس فوجی بھائی نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد اس نے ان گنت بواسیر کے
مریض میرے پاس بھیجے ۔
معجون کے اور فائدے یہ معجون ان مریضوں کے لیے بھی مفید ہے جو معدہ کی خرابی
اور قبض کا شکار رہتے ہیں ۔ اکسیر ترین چیز ہے۔ استعمال کریں اور ضرور لکھیں کہ
آپ نے اس نسخہ کو کیسا پایا۔
بواسیر کے مسوں کا خاتمہ یہ نسخہ بواسیر کی جلن کو فوراًختم کرتا ہے اور جلن
کوٹھیک کرنے کے علاوہ مسوں کو ختم کرتا ہے۔ بواسیر کے درد کا اکسیر خاص نسخہ ہے
بار ہا مجرب ہے۔
شہد : 30ML روغن زیتون : 30ML دونوں اکسیر ترین چیزیں ہیں۔ ان کا خالص ہونا شرط ہے ۔
دونوں کو اچھی طرح ملا لیں یعنی حل کر لیں ۔ اس محلول کو انگلی کی مدد سے مسوں پر
آہستہ آہستہ ملیں خاص طور پر درد اور جلن والی جگہ پرلگائیں۔ اور اس کے استعمال
کا صحیح وقت رات کو سونے سے قبل ہے۔ اس محلول میںروئی بھگو کر (اچھی طرح ) مقعد
یعنی پاخانہ والی جگہ کے اندر انگلی سے رکھیں۔ بواسیر کا درد اور جلن فوراًختم ہو
جائے گی اور انشا ء اللہ مسے چند یوم میں ختم ہو جائیں گے۔
بواسیر کا مجرب علاج میرے ایک دوست ہیں جو کہ سکول ٹیچر ہیں ان کی بیوی کو
بواسیر کی تکلیف ہو گئی ۔ جس کی وجہ سے مقعد میں شدید جلن اور درد تھا۔ بہت سی
مختلف طب کی ادویات استعمال کیں مگر افاقہ کم ہی ہواایک دن کافی فکر مند تھے
کیونکہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب اس کا آپریشن ہی ہو گا۔ ایسی صورت حال میں ان سے
ملنے ایک بزرگ آئے ان کا بچہ ماسٹر صاحب کے پاس پڑھتا تھا باتوں باتوں میں ”
بیوی” کا ذکر آگیاتو بزرگ کہنے لگے۔ کہ آپ کو ایک ایسا نسخہ خاص بتا دوں جس کی
وجہ سے بہت سے لوگ اس موذی مرض سے نجات پاگئے ہیں ۔ وہ نسخہ یہ ہے۔ شہد خالص :
30ML دودھ ( تازہ گائے کا) :
250ML تازہ گائے کے دودھ کو بہت اچھی طرح ابال لیں اس کے بعد
چولہے سے اتار کر اس میں شہد حل کریں ۔ یہ دودھ صبح اور شام کو خالی پیٹ پی لیں۔
اس کے استعمال سے بواسیر کا درد ختم ، جلن بھی ختم اور بواسیری مسوں سے خون آنا
بند ہو جاتا ہے۔ میں اکثر اپنے مریضوں کو اس کے ساتھ ساتھ انجیر زرد تازہ (3عددیا
5عدد) ہر کھانے کے گھنٹہ بعد کھانے کو کہتا ہوں۔جو کہ مسوں کو کاٹ دیتی ہے۔اور
بواسیر سے نجات مل جاتی ہے جیسا کہ فوجی بھائی والے نسخے اور حدیث سے ظاہر ہے۔
خاص شرط اس نسخے میں گائے کا دودھ ہی استعمال کریں ورنہ بواسیر
کی درد اور جلن کو فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
دماغ میں ابنارمل سیلز کی نشونما جب حد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ
سیلز ایک جگہ جمع ہوکر ٹیومر
کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
برین ٹیومر کی اقسام:
برین ٹیومر کو اس کی نشونما کے حساب سے گریڈز دیے جاتے ہیں جس میں
دیکھا جاتا ہے کہ یہ کتنی تیزی سے نشونما کرتے ہیں اور علاج کے بعد کسی حد تک ٹھیک
ہوسکتے ہیں ۔
گریڈ ون اور ٹو نچلے درجے کے ہوتے ہیں جبکہ گریڈ تھری اور فور
زیادہ بڑھے ہوئے مرض کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ برین ٹیومر کی دو اقسام ہیں:
بینائن (نون کینسرس) برین ٹیومر:
لو گریڈ (گریڈ ون اور گریڈ ٹو ) میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ جس کا
مطلب ہے کہ ان کی نشونما سست روی سے ہوتی ہے اور علاج کے بعد دوبارہ شاز و نادر ہی
ہوتے ہیں۔
میلگننٹ(کینسرس) برین ٹیومر:
یہ ہائی گریڈ ( گریڈ تھری اور فور ) ٹیومر ہوتے ہیں جو یا تو دماغ
میں ہی پیدا ہوتے ہیں یا کسی اور جگہ سے پھیل کر دماغ میں آتے ہیں ۔ یہ ٹیومرز
علاج کے بعد دوبارہ بڑھ جاتے ہیں۔
برین ٹیومر کی علامات :
برین ٹیومر کی علامات کا انحصار دماغ میں موجود ٹیومر کی جگہ پر
ہوتا ہے یعنی ٹیومر دماغ کے کسی حصے کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کی عام علامات یہ ہیں۔ ۔ سر میں مسلسل شدید درد ہونا ۔ دورہ پڑنا یا جھٹکے لگنا ۔ مسلسل متلی ، الٹی یا غنودگی کی کیفیت ۔ ذہنی کیفیت میں تبدیلی جیسے یادداشت میں
کمی یا شخصیت میں تبدیلی ۔جسم کا ایک حصہ کمزور یا مفلوج ہوجانا ۔ دیکھنے یا بولنے میں مسئلہ ہونا بعض اوقات اس کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی اور یہ
آہستہ آہستہ نشونما پاتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر سے رجوع کریں:
اگر اوپر درج علامات نظر آئیں تو فوری طور پر
ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ خاص طور پرشدید سر دردکی صورت میں ڈکٹر سے رابطہ ضروری
ہے۔ ضروری نہیں کہ سر درد کی وجہ برین ٹیومر ہی ہو لیکن پھر بھی ڈاکٹر کو دکھانا
ضروری ہے۔ اگر آپ کا فزیشن اس کی وجہ نہ سمجھ سکے گا تو وہ آپ کو
نیورولوجسٹ کے پاس جانے کا مشورہ دے گاتاکہ ضروری ٹیسٹ ہوسکیں۔
وجوہات اور خطرات :
دماغ میں ٹیومر کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوتی لیکن ایسی بہت سی باتیں
ہیں جو دماغ کے ٹیومر کی وجہ بن سکتی ہیں
عمر:
عمر کے بڑھنے کے ساتھ برین ٹیومر کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے جبکہ کچھ برین
ٹیومر بچوں میں بھی ہوتے ہیں۔
پہلے سے کینسر ہونا:
وہ بچے یا بڑے جنھیں پہلے سے کینسر ہو آگے جاکرانھیں برین ٹیومر
بھی ہوسکتا ہے۔
ریڈی ایشن:
ریڈی ایشن بھی برین ٹیومر کا باعث بن سکتی ہے ایسے لوگ جن کے سر کی
ریڈیو تھراپی ، سی ٹی اسکین یا ایکس رے ہوا ہو ان کو برین ٹیومر کا خطرہ ہوتا ہے۔
ایچ آئی وی یا ایڈز:
عام لوگوں کے مقابلے میںایچ آئی وی ایڈزکے مریضوں میں برین ٹیومر ہونے کا
خطرہ ڈبل ہوجاتا ہے۔
علاج:
برین ٹیومر کا علاج عمر اور مرض کی کیفیت کے حساب سے کیا جاتا ہے
جس میںسرجری ، ریڈیو تھیراپی اور کیمو تھیراپی شامل ہے۔
اللہ سبحان
تعالیٰ نے انسان کو دو گردوں سے نوازا ہے۔یہ اصل میں غدود ہوتے ہیں پسلیوں کے
نیچے، پیٹ کی طرف، کمرمیں دائیں اور بائیں طرف واقع ہوتے ہیں۔گردہ11 سینٹی میٹر
لمبا،کم و بیش7 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 یا 3 سینٹی میٹر موٹا ہوتا ہے۔ہر گردہ میں
10 لاکھ سے زائد نالی دار غدود ، نیفران ،یا فلٹر(جھلی) ہوتے ہیں ،گردوں میں ایک
اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 1500 لیٹر خون گزرتا ہے۔
اللہ سبحان تعالیٰ نے انسان کو دو گردوں سے نوازا ہے۔یہ اصل میں
غدود ہوتے ہیں پسلیوں کے نیچے، پیٹ کی طرف، کمرمیں دائیں اور بائیں طرف واقع ہوتے
ہیں۔گردہ11 سینٹی میٹر لمبا،کم و بیش7 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 یا 3 سینٹی میٹر موٹا
ہوتا ہے۔ہر گردہ میں 10 لاکھ سے زائد نالی دار غدود ، نیفران ،یا فلٹر(جھلی) ہوتے
ہیں ،گردوں میں ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 1500 لیٹر خون گزرتا ہے۔
گردوں کا کام جسم سے فاسد ،نقصان دہ،ضرورت سے زائد مادوں کو خارج کرنا ہے۔گردے جسم
میں پانی اور نمکیات کا توازن برقرار رکھتے ہیں ،مثلاََجسم میں کیلشیم ،پوٹاشیم ا
ور فاسفورس کی مقدار کے علاوہ پانی اور دیگر نمکیات وغیرہ کا ایک حد تک جسم میں
رہنا ضروری ہوتا ہے اس کی کمی و بیشی سے بہت امراض جنم لیتے ہیں ،انسان زندہ نہیں
رہ سکتا ،گردوں کا کام ان مادوں ،نمکیات اور پانی میں توازن قائم رکھنا ہے۔گردے
جسم کے لیے ایسے بہت سے مفید ہارمون پیدا کرتے ہیں ،اگر یہ ہارمون جسم میں کم ہو
جائیں تو خون کی کمی کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔
گردے فیل ہونے کی بہت سی وجوہا ت ہیں جن میں چند اہم درج ذیل ہیں۔گردے کی جھلی کی
سوزش،جھلی فلٹر یا نیفران کی ایک طرف فاسد مادے ہوتے ہیں دوسری طرف شفاف مادے جھلی
کا کام فاسد مادوں کو فلٹرکرنا ہے ،یہ جھلی اگر کام نہ کرے ، کسی وجہ سے خراب ہو
جائے تو اس کے ساتھ والی جھلیاں بھی خراب ہونا شروع ہو جاتیں ہیں جس سے گردہ کام
کرنا چھوڑ دیتا ہے۔اس سے پیشاپ کے اندرچربی یا خون آنا شروع ہو جاتاہے گردہ فیل
ہونے کی سب سے زیادہ وجہ جھلی کی سوزش ہی بنتی ہے۔دوسری وجہ شوگر اور ہائی بلڈ
پریشر ہے ،اگر شوگر کا مرض ہو تو اس کے عموماََ10 تا 15 سال کی مدت کے بعد گردوں
کی خرابی کا شکار ہو جاتا ہے۔اس لیے شوگر کے مریضوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے اور
شوگر کنٹرول رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح بلڈ پریشر کی زیادتی کی
وجہ سے بھی گردے خراب ہو جاتے ہیں ،بلڈ پریشر کے مریضوں کو اپنا بلڈ پریشر کنٹرول
رکھنا بے حد ضروری ہے ایسا نہ کرنے سے گردوں کے ساتھ ساتھ دل کا دورہ اور فالج بھی
ہو سکتا ہے۔
موسم گرما میں جسم کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،کم پانی پینے سے جسم میں پانی
کی کمی ہو جاتی ہے اور موسم سرما میں سردی کی وجہ سے کم پانی پیا جاتا ہے ،جس سے
جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے جو گردوں میں پتھری کا سبب بنتا ہے ،یہ پتھری
پیشاب کے ذریعہ خارج نہیں ہو سکتی ،گرودوں کی جھلی میں زخم بنتے ہیں ،جو سوزش کا
باعث بن جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ گردوں کے فیل ہونے کی طرف لے جاتے ہیں۔یعنی پانی کی
کمی گردوں کے فیل ہونے کا تیسرا بڑا سبب ہے۔جھلی کی سوزش ،شوگر،بلڈ پریشر،پانی کی
کمی وغیرہ دیکھا جائے تو یہ سب پانی کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے علاوہ ازیں پانی کا
صاف نہ ہونا بھی اس میں شامل ہے۔
لیکن گردوں کے فیل ہونے کا ایک بہت اہم سبب عطائی حکیموں ،سنیاسیوں،کے کشتہ جات
،نامناسب نسخہ جات ،بھی وجہ بنتے ہیں ،بہت سے افراد "سدا جونی" حاصل
کرنے کے چکر میں اپنے گردے ،جگران اشتہاری معالجوں کی دی ہوئی ادویات کی نذر کر
چکے ہیں۔
یہ تو مختصر ذکر گردوں کے فیل ہونے کی وجوہات کا تھا اسی طرح گردوں کے فیل ہونے کی
اقسام بھی ہیں مثلاََ اچانک گردوں کا فیل ہو جانا ،اس کی وجہ شدید گرمی میں پانی
کی شدید کمی ،خواتین میں زچگی کے دوران خون اور پانی کی کمی،ہائی بلڈ پریشرکا شدید
دورہ اور سانپ کے کاٹ لینے اور بہت زیادہ مشقت کرنے وغیرہ سے اچانک گردے فیل ہو
سکتے ہیں۔ایک اہم نقطہ یہ بھی قابل توجہ ہے کہ شوگر ،ہائی بلڈ پریشر،جھلی کی سوز ش
وغیرہ سے مریض کے گردے پہلے سے کمزور ہوتے ہیں اس پر ذرا سی اونچ نیچ ،مثلاََ
ناموافق دواکھا لینا،بلڈ پریشر کا گر جانا یا بڑھ جانا،بہت زیادہ پسینے کا آ جا نا
اس طرح کے حادثات سے وقتی طور پر اچانک گردے فیل ہو سکتے ہیں۔گردوں کے فیل ہونے کی
دوسری قسم ہے مستقل گردوں کی خرابی اس میں 50 فیصد تو گردے پہلے خراب ہوتے ہیں ،جن
کے مناسب علاج ،پرہیزسے ان کو زیادہ دیر تک کارآمد رکھا جا سکتا ہے اور اگر ان کی
دیکھ بھال نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ گردے فیل ہو جاتے ہیں۔
یہ بات بہت قابل توجہ ہے کہ جب تک گردے 80 یا 90 فیصد تک تباہ نہ ہو چکے ہوں اس سے
پہلے مریض کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا وہ اپنا روز مرہ کا کام کرتا رہتا ہے ،ایک
گردہ ناکارہ بھی ہو جائے تو بھی دوسرا کام کرتا رہتا ہے ،اسی طرح یہ بات بھی توجہ
چاہتی ہے کہ جب گردے ایک بار مکمل ناکارہ ہو جائیں تو کوئی دوائی یا علاج اس کو
صحیح حالت میں نہیں لا سکتا۔اس کا علاج پیوند کاری ہی ہے۔
اگر کسی کو درج ذیل علامات میں سے کوئی علامت محسوس ہو تو اسے گردوں کے اسپیشلسٹ
ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ لازمی کروا لینا چاہیے۔کھانے کی خواہش کا ختم ہو جانا
،یاداشت کی کمزوری ،متلی اور قے کا آنا ،چڑچراپن،تھکاوٹ کا محسوس ہونا ،چہرے کا
رنگ پیلا ہونا ،خشک جلد،رات کو بار بار پیشاب آنا اور پیشاب میں رکاوٹ وغیرہ کا
ہونا ،شوگر کا مرض ہونا،بلڈ پریشر کی کمی یا زیادتی کا ہونا وغیرہ
گردوں کی بیماری کا علاج اس کی اقسام اور سٹیج کے مطابق کیا جاتا ہے۔عام طور پر 50
فیصد گردوں کے فیل ہونے کا سبب شوگر،بلڈ پریشر،گردوں کا انفیکشن وغیرہ بنتا ہے اگر
ان کا علاج کیا جائے تو اس سے گردوں کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔گردوں
میں پتھری ہو تو اس کا علاج شعاعوں سے ،آپریشن سے ممکن ہے ،لیکن مکمل طور پر گردوں
کے فیل ہونے کی صورت میں گردوں کی پیوندکاری ہی اس کا علاج ہے جس میں گردہ دینے
والے اور لینے والے کا بلڈ گروپ ایک ہونا ضروری ہے گردہ دینے والے کاجتنا قریبی
تعلق ہو گا اس کی پیوندکاری اتنی کامیاب ہو گی۔
دردہ گردہ میں آدمی ایسے تڑپتا ہے جیسے مچھلی بناں پانی کے جب ایسا کسی کو درد ہو
تو گردہ کے مقام پر فوراََ گرم پانی سے ٹکور کریں ،مولی کا نمک چٹائیں ، تمباکو کو
ابال کر نیم گرم مقام درد پر باندھ دیں اور ڈاکٹر کے پاس مریض کو لے جائیں خیال
رہے نیم حکیم کے پاس نہیں۔الٹراساونڈ کروائیں۔پھر ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق عمل
کریں۔
ایسی تمام غذائیں جن میں فولاد زیادہ پایا جاتا ہے ان سے پرہیز کریں مثلاََ گوشت،
چاول، مکئی، وغیرہ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی ،کولاکے مشروبات ،شراب نوشی،وغیرہ سے
پرہیز کریں۔موٹاپا، زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا،ورزش نہ کرنے والے افراد پر دیگر
امراض کی طرح گردوں کے فیل ہونے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔اس لیے صبح دو گلاس تازہ
اور صاف پانی پینا ،ہلکی پھلکی ورزش کرنا،دن میں بھی پانی پینا ،کھانا کھانے کے
فوراََبعد پانی نہ پینا چاہیے ،رات کو سونے سے گھنٹا بھر پہلے دو گلاس پانی پینا
چاہیے ،قبض نہ ہونے دیں ،اسی طرح دیگر حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے بہت سی
امراض سے بچا جا سکتا ہے۔مختصر صاف پانی کا زیادہ استعمال،ہر قسم کے نشہ سے پرہیز
،متوازن غذا،موٹاپے پر کنٹرول کرنے سے کافی حد تک اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
سر درد ایک ناقابل برداشت تکلیف ہے اور تقریباً ہر شخص کو اکثر
اس کا سامنا ہوتا ہے۔سر میں درد کی تکلیف بعض اوقات ہاتھ پیروں کو بے جان کر دیتی
ہے اور اس کا شکار شخص کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتا، یہاں تک کہ کسی دوا یا
قدرتی طریقے سے سر درد خود ہی کم ہوجائے۔تاہم آج ہم آپ کو اس تکلیف دہ کیفیت سے
جان چھڑانے کا نہایت آسان طریقہ بتا رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو ایکو پریشر
کاطریقہ اپنانا ہوگا۔ایکو پریشر ایکو پنکچر ہی کی طرح چینی طریقہ علاج ہے جس
میں
جسم کے مخصوص حصوں پر مساج یا دباؤ کے ذریعے مختلف تکالیف کا علاج کیا جاسکتا
ہے۔اس طریقہ علاج میں بمشکل 30 سیکنڈز یا ایک منٹ کا وقت لگے گا۔اس پر عمل کرنے کے
لیے سب سے پہلے آرام دہ حالت میں بیٹھ یا لیٹ جائیں اور بالکل پرسکون ہوجائیں۔اب
مندرجہ ذیل بتائے جانے والے مقامات پر ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں اور دباؤ ڈالیں۔
مساج کے بعد عموماً 10 سے 15 منٹ کے اندر سر درد غائب ہوجائے گا۔ناک کی جڑ کے اوپر
اور دونوں بھنوؤں کے بالکل درمیانی جگہ پر مساج آنکھوں کو تھکن اور سر درد سے
نجات دلا سکتا ہے۔بھوؤں کے ان مقامات پر مساج آپ کو سر درد کے ساتھ نزلے سے بھی
چھٹکارہ دلائے گا۔ اس مقام پر ایک منٹ تک دائروں کی صورت میں مساج کریں۔گال کی ہڈی
کے نیچے گڑھے کو ہاتھ سے چھو کر محسوس کریں۔ اس مقام پر ہلکے ہاتھ سے مساج یا
دباؤ ڈالنا سر درد کے ساتھ سانس کے امراض اور دانت کے درد میں بھی کمی کرے
گا۔گردن کے ان مقامات کو دبانا یا مساج کرنا آدھے سر کے درد، آنکھوں اور کانوں
کی تکلیف سے نجات دلائے گا۔کان کے اوپر اس جگہ پر مساج بھی آنکھوں کی تھکن اور سر
درد کو کم کرنے میں مددگار ہوگا۔ہاتھ کے اس مقام پر مساج پیٹھ کے درد، دانت کے درد
اور سر درد میں کمی جبکہ گردن کے تنے ہوئے اعصاب کو پرسکون حالت میں لے آئے گا۔
کھانسی کی تکلیف یا دائمی کھانسی میں مبتلا مریضوں کو سردیوں اور بہار کے موسم کے آغاز سے
پہلے
ہی بہت محتاط ہو جانا چاہیے کیونکہ پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع ہونے والی
بلغم نزلے زکام کے جراثیموں کی آماجگاہ بن جاتی ہے جہاں وہ تیزی سے نشو و نما پاتے
ہیں۔ یہ بلغم کبھی کبھی شدید کھانسی کی صورت میں بھی باہر نہیں نکلتی، نالیوں کو
جکڑے رکھتی ہے اور اکثر پھیپھڑوں کے مہلک انفیکشن کا سبب بنتی ہے۔ شدید
کھانسی عموماً لگ بھگ تین ہفتے رہتی ہے۔ کھانسی کی چند دیگر اقسام ٹھیک ہونے میں
کبھی کبھی کافی وقت لے لیتی ہیں تاہم کھانسی کسی بھی نوعیت کی ہو اس کا تعلق نظام
تنفس میں پیدا ہونے والے کسی نقص سے ضرور ہوتا ہے۔ گلے کی خرابی، حلق کی سوزش، سانس
کی نالی میں کسی قسم کے انفیکشن کا جنم لینا یا پھیپھڑوں کی خرابی، کھانسی کا سبب
بنتی ہے۔ کھانسی کا مؤثرعلاج نہ ہونے کی صورت میں یہ خطرناک شکل اختیار کر سکتی
ہے۔
آسان اور متبادل علاج
کھانسی کم کرنے یا روکنے والے مختلف شربت دیکھنے میں بہت بھلے لگتے
ہیں۔ جیب پہ بھی خاصا بوجھ ڈالتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس
لیے بچنا بہترہے۔ تھوڑی بہت کھانسی ہونا فائدہ مند ہے۔ اس سے سانس کی نالی صاف
ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ کھانسی کی صورت میں مندرجہ ذیل گھریلو علاج فائدہ مند ہے۔
*لیموں کے عرق سے تولیے کو تر کر کے سینے کو لپیٹنے سے
بھی کھانسی میں آرام آتا ہے۔
*گرم دودھ میں شہد ملا کر پینے سے پھیپھڑوں سے بلغم صاف
ہو جاتا ہے۔
*نمک کے پانی سے غرارے کرنے اور نمک کے گرم پانی کا بھاپ
لینے سے ناک اور گلے کی سوزش میں کمی آتی ہے اور سانس کی نالی پر حملہ کرنے والے
جراثیم بھی مر جاتے ہیں۔ اس طرح کھانسی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
*شدید کھانسی میں سانس لینے کا عمل غیر معمولی اہمیت کا
حامل ہوتا ہے۔ تیز تیز سانس لینا کھانسی اور پھیپھڑے میں جمع بلغم کو صاف کرنے میں
مدد نہیں دیتا۔ آہستہ آہستہ اور گہری سانس لینے سے پھیپھڑے کی بند نالیوں کو
کھولنے اور خون تک آکسیجن کی مطلوبہ مقدار کی فراہمی میں مدد ملتی ہے۔
* نیم گرم پانی میں نمک یا ڈسپرین ڈال کر غرارے کریں۔
* صبح دوپہر شام دو چمچ شہد میں چار دانے پسی ہوئی سیاہ
مرچ ملا کر استعمال کریں۔
* ایک پیالی انگور کا رس میں ایک چمچ ملا شہد کھانسی کا
موثر ترین علاج ہے۔
* میٹھے بادام کی چھ سات گریاں پانی میں بھگوئیں۔ صبح
چھلکا اتار کر چینی اور مکھن کے ساتھ ملا کر آمیزہ بنائیں اور کھا لیجیے۔ خشک
کھانسی کے لیے مجرب نسخہ ہے۔
* ذرا سی ملٹھی کھانے سے کھانسی کافی حدتک کم ہوجاتی ہے۔
*سینے پر ہنس کی چربی ملنے سے کھانسی میں بہت آرام آتا
ہے اور اس کی گرمی پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع بلغم کو صاف کرنے میں بھی بہت مدد
دیتی ہے۔
* کچا امرود جسے گدرا بھی کہتے ہیں چولہے پر بھون کر نمک
میں ملاکر کھانے سے بھی کھانسی میں آرام آتا ہے۔
*دوپیاز لے کر آگ پر بھون لیں جب اس کا بیرونی چھلکا جل
کر کالا ہوجائے تو چھلکا اتار کر اندرونی حصہ رگڑ کر خوب باریک کرلیں اور چھان کر
اس کا پانی الگ نکال لیں۔ پھر اس میں ہم وزن شہد ملالیں۔ یہ آمیزہ ایک چمچ صبح شام
مریض کو دیں ۔حیرت انگیز طورپر کھانسی میں افاقہ ہوگا۔
”یادداشت کی بدولت ہی
ہم زندگی کا لطف اُٹھا سکتے ہیں۔ یادداشت کے بغیر ہمیں یوں لگتا جیسے ہماری زندگی
ہر روز نئے سرے سے شروع ہو رہی ہے۔ جب ہم خود کو آئینے میں دیکھتے تو ہمیں ایک
اجنبی نظر آتا۔ ہماری زندگی کا ہر پل ہمارے ماضی اور مستقبل سے کوئی تعلق نہ رکھتا۔
ہم نہ تو ماضی سے کچھ سیکھ سکتے اور نہ ہی مستقبل کے لئے منصوبے باندھ
سکتے۔“—کتاب ”ذہن کے راز“ (انگریزی میں دستیاب)۔
گلہریاں اور بعض پرندے
مہینوں بعد یاد کر سکتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی خوراک کس جگہ چھپائی ہے۔ لیکن ہم
ایک گھنٹے میں بھول جاتے کہ ہم نے چابیاں کہاں رکھی ہیں۔ بہت سے لوگ اِس بات کی
شکایت کرتے ہیں کہ اُن کی یادداشت کمزور ہے۔ لیکن دراصل انسان کا دماغ بہت کچھ
سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا ہر
شخص کے لئے ممکن ہے۔
دماغ کی حیرتانگیز
صلاحیت
انسان کے دماغ کا وزن عام
طور پر ۴.۱
کلوگرام [۳ پونڈ] ہوتا ہے اور وہ گریپفروٹ جتنا بڑا ہوتا ہے۔ دماغ میں ایک
کھرب کے لگبھگ اعصابی خلیے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اکثر
ایک خلیہ ایک لاکھ دوسرے خلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے دماغ بہت سی معلومات
کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہے۔ البتہ اِس معلومات کا کوئی فائدہ نہیں اگر ہم ضرورت
پڑنے پر اِسے یاد نہیں کر پاتے۔ کئی لوگوں کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے اور اُن میں
بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو زیادہ پڑھےلکھے نہیں ہیں۔
اِس سلسلے میں مغربی افریقہ
کے قبیلوں کے اَنپڑھ تاریخدانوں پر غور کریں۔ ان کو گریو کہا جاتا ہے۔ اُنہیں
اُن تمام لوگوں کے نام معلوم ہیں جو پچھلی کئی پُشتوں میں اُن کے گاؤں میں رہتے
تھے۔ یہ بات مصنف ایلکس ہیلی کے بڑے کام آئی جن کے پردادا کا تعلق مُلک گیمبیا سے
ہے۔ اُنہوں نے اپنے خاندان کی تاریخ کے بارے میں ایک ناول لکھی جس کے لئے اُنہیں
انعام ملا۔ وہ گریو تاریخدانوں کی مدد سے اپنے خاندان کی پچھلی چھ پُشتوں تک
تحقیق کر پائے۔ ایلکس ہیلی نے کہا: ”مَیں افریقہ کے گریو کا بہت ہی احسانمند
ہوں۔ یہ کہاوت کتنی سچ ہے کہ جب ایک گریو مر جاتا ہے تو ایسا نقصان ہوتا ہے گویا
ایک لائبریری جل کر راکھ ہو گئی ہو۔“
ذرا کرنیلیس وان ڈر سٹین
نامی ایک شخص کی مثال پر غور کریں جو سترہویں صدی میں رہتا تھا۔ وہ کیتھولک مذہب
سے تعلق رکھتا تھا اور اِس مذہب کی ایک خاص جماعت (یعنی جیسویٹ) کا رُکن بننا
چاہتا تھا۔ البتہ اُس کا قد چھوٹا تھا اور اِس کی وجہ سے اُس کی درخواست کو رد کر
دیا گیا۔ اُس کے اصرار پر اُس پر یہ شرط عائد کی گئی کہ اِس جماعت کا رُکن بننے
کے لئے اُسے پوری بائبل زبانی یاد کرنی پڑے گی۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ اِس مشکل
شرط پر پورا اُترا!
قوتِیادداشت کی ایسی مثالیں
ہمیں واقعی حیران کر دیتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اُن کی یادداشت کمزور
ہے۔ لیکن دراصل ہم سب اپنی یادداشت کو بہتر بنانے کے قابل ہیں۔ آئیں دیکھیں کہ
ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔
اپنی یادداشت
میں بہتری لائیں
دماغ معلومات کو کیسے محفوظ
کرتا ہے؟ اِس کے تین مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں دماغ معلومات کو حاصل کرتا
اور اِسے پہچانتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں دماغ اِس معلومات کو ذخیرہ کر لیتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں دماغ معلومات کو ضرورت کے مطابق استعمال میں لاتا ہے۔ ہم معلومات
کو صرف اُس صورت میں یاد کر سکتے ہیں جب اِسے اِن تین مراحل سے گزارا جائے۔
یادداشت کی مختلف اقسام ہوتی
ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سی یادیں ہمارے حواس سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب ہم کچھ
سُونگھتے، دیکھتے یا چُھوتے ہیں تو یہ بات ہماری یادداشت میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
کچھ معلومات ہم صرف تھوڑی دیر کے لئے یاد رکھتے ہیں۔ اِس قسم کی یادداشت کی وجہ
سے ہم فون نمبر دیکھ کر اِسے اُتنی دیر کے لئے یاد کر پاتے ہیں جب تک ہم اِسے ملا
نہ لیں، ہم ذہن میں حساب لگا سکتے ہیں اور جملے کے دوسرے حصے کو سنتے وقت پہلے
حصے کو یاد رکھتے ہیں۔ البتہ اِس قسم کی یادداشت کے ذریعے ہم صرف تھوڑی سی
معلومات کو کچھ دیر کے لئے محفوظ کر سکتے ہیں۔
یادداشت کی ایک ایسی قسم بھی
ہے جس کے ذریعے آپ معلومات کو بڑے عرصے تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اِس قسم کی
یادداشت کو تیز کرنے کے لئے آپ اِن طریقوں کو آزما سکتے ہیں:
▪معلومات میں دلچسپی لیں۔ جب آپ ایک موضوع کے بارے میں سیکھتے ہیں تو اِس میں دلچسپی لیں اور
یاد رکھیں کہ اِس کے بارے میں سیکھنا آپ کے لئے فائدہمند کیوں ہے۔ آپ نے خود
دیکھا ہوگا کہ جب ایک بات آپ کے دل کو چُھو لیتی ہے تو اِسے یاد رکھنا زیادہ آسان
ہوتا ہے۔ لہٰذا، خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت یاد رکھیں کہ آپ اِس لئے ایسا
کر رہے ہیں تاکہ آپ خدا کے نزدیک جا سکیں اور دوسروں کو اُس کے بارے میں تعلیم دے
سکیں۔ آپ سیکھی ہوئی باتوں کو تب ہی آسانی سے یاد رکھ پائیں گے جب یہ آپ کے دل کو
چُھو لیں گی۔—
▪معلومات پر دھیان دیں۔ کتاب ”ذہن کے راز“ میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”جب لوگ ایک بات کو
یاد نہیں کر پاتے تو اکثر اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ توجہ نہیں دے رہے تھے۔“
اگر آپ کو ایک بات پر توجہ دینا مشکل لگتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اِس میں
دلچسپی لیں اور جہاں تک ممکن ہو کاغذ پر اہم نکات نوٹ کر لیں۔ اِس طرح نہ صرف آپ
کا دھیان بات پر رہے گا بلکہ بعد میں آپ اِن نکات کو دوبارہ سے پڑھ کر اپنی یاد
تازہ کر سکیں گے۔
▪معلومات کو سمجھیں۔ جس بات کو ہم پوری طرح سے سمجھ نہیں پاتے اِسے یاد رکھنا زیادہ
مشکل ہوتا ہے۔ ایک معاملے کو پوری طرح سے سمجھنے کے لئے اُس کے مختلف پہلوؤں کو
سمجھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ اِن پہلوؤں کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔ مثال کے
طور پر جب ایک موٹر مکینک یہ سمجھ جاتا ہے کہ انجن کیسے کام کرتا ہے تو وہ اُس
انجن کے بارے میں تفصیلات بھی یاد رکھے گا۔
▪معلومات کو ترتیب دیں۔ مختلف چیزوں کو اپنی اپنی قسم کے مطابق ترتیب دیں۔ فرض کریں کہ آپ
سودا خریدنے کے لئے جا رہے ہیں۔ مختلف چیزوں کو یاد رکھنے کے لئے اُن کو اپنی
اقسام کے مطابق ترتیب دیں، مثلاً سبزیاں، پھل، دالیں، مصالحے وغیرہ۔ پھر
معلومات کو حصوں میں تقسیم کریں اور ہر حصے میں پانچ تا سات سے زیادہ چیزیں شامل
نہ کریں۔ فون نمبروں کو اِس لئے عموماً دو حصوں میں تقسیم کِیا جاتا ہے تاکہ وہ
آسانی سے یاد رہیں۔ اس کے علاوہ آپ معلومات کو الفبے یا کسی اَور اصول کے مطابق
ترتیب دے سکتے ہیں۔
▪سیکھی ہوئی بات کو اُونچی آواز میں دہرائیں۔ مثال کے طور پر جب آپ ایک غیرزبان سیکھتے ہیں تو نئے الفاظ کو
اُونچی آواز میں دہرائیں۔ اِس طرح یہ الفاظ ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ اِس کی تین
وجوہات ہیں۔ اؤل، جب آپ الفاظ کو اُونچی آواز میں دہراتے ہیں تو آپ کی توجہ
نہیں بٹتی۔ دوم، اُستاد فوراً آپ کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اور سوم، اگر آپ الفاظ
کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اِنہیں سنتے بھی ہیں تو آپ دماغ کے دوسرے حصوں کو بھی
استعمال میں لاتے ہیں۔
▪معلومات کو تصور کریں۔ جن باتوں کو آپ یاد رکھنا چاہتے ہیں انہیں تصور کریں یاپھر کاغذ پر
ان کی تصویر بنائیں۔ اِس طریقے سے بھی آپ دماغ کے دوسرے حصوں کو استعمال میں لا
رہے ہوں گے۔ معلومات کو یاد کرنے کے لئے آپ جتنے حس استعمال میں لاتے ہیں اُتنا
ہی زیادہ یہ معلومات آپ کے ذہن پر نقش ہو جائے گی۔
▪معلومات کو دوسری باتوں سے منسلک کریں۔ جب آپ ایک نئی بات سیکھتے ہیں تو اُسے ایسی باتوں سے منسلک کریں جو
آپ کو پہلے سے معلوم ہیں۔ اگر آپ دو باتوں کے بیچ میں تعلق قائم کرتے ہیں تو آپ
اِس تعلق کی مدد سے اِن باتوں کو زیادہ آسانی سے یاد کر سکیں گے اور بعد میں
استعمال میں لا سکیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا نام یاد رکھنے کے لئے اُس کی
شکلوصورت کے کسی خاص پہلو کو اُس کے نام سے منسلک کریں۔ آپ دو باتوں میں جتنا ہی
مذاقیہ یا عجیب تعلق قائم کریں گے اُتنا ہی اُنہیں یاد رکھنا آسان ہوگا۔ اِس کا
مطلب ہے کہ ہمیں اُن لوگوں اور باتوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جنہیں ہم یاد رکھنا
چاہتے ہیں۔
کتاب ”یادداشت کی طلب“
(انگریزی میں دستیاب) میں بیان کِیا گیا ہے: ”اگر ہم سوچبچار کئے بغیر زندگی
گزارتے ہیں اور اپنے اِردگِرد کے ماحول میں دلچسپی نہیں لیتے تو ہماری یادیں
دُھندلی ہوں گی اور ہمیں کم ہی باتیں یاد رہیں گی۔“
▪معلومات کو ذہن پر نقش کریں۔ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم تھوڑے عرصے بعد اِس معلومات کو
دہرائیں۔ مثال کے طور پر ہم سیکھی ہوئی بات کو دوسروں کو بتا سکتے ہیں۔ اگر آپ
کے ساتھ کوئی دلچسپ واقعہ پیش آیا ہے یا پھر آپ نے خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت
کوئی دلچسپ بات پڑھی ہے تو اِسے دوسروں کو بتائیں۔ یوں آپ کی یادداشت تیز ہو جائے
گی اور دوسروں کی حوصلہافزائی بھی ہوگی۔ ایک بات کو ذہننشین کرنے کا بہترین
طریقہ یہ ہے کہ آپ اِسے وقتاًفوقتاً دہرائیں۔
یادداشت کو
تیز کرنے کے انوکھے طریقے
قدیم یونان اور روم کے مقرر
لمبی لمبی تقریریں زبانی یاد کرکے پیش کرتے تھے۔ وہ معلومات کو بڑے عرصے تک محفوظ
رکھنے کے لئے خاص طریقے استعمال کرتے تھے۔
ایک ایسے طریقے کا ذکر سائمنائیڈز
نامی ایک یونانی شاعر نے ۴۷۷ قبلِمسیح میں کِیا۔ اِس طریقے کو لوکی کا نام دیا گیا۔ اِس
طریقے میں معلومات کو ترتیب دیا جاتا ہے، اِسے تصور کِیا جاتا ہے اور اِسے کسی
چیز یا جگہ سے منسلک کِیا جاتا ہے۔ جو لوگ اِس طریقے کو استعمال کرتے ہیں وہ اپنے
تصور میں ایک جگہ کی سیر کرتے ہیں۔ جن باتوں کو وہ یاد رکھنا چاہتے ہیں اُنہیں وہ
اِس سیر کے دوران راہ میں دکھائی دینے والی مختلف چیزوں سے منسلک کرتے ہیں۔ پھر
جب وہ اِس معلومات کی یاد تازہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ دوبارہ سے اپنے تصور میں اِس
جگہ کی سیر کرتے ہیں۔—کو دیکھیں۔
جب اُن لوگوں پر تحقیق کی
گئی جو یادداشت کے عالمی مقابلے میں اچھی کارکردگی ظاہر کرتے ہیں تو یہ دیکھا گیا
کہ عموماً وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ ذہین نہیں ہیں۔ اِس مقابلے میں حصہ لینے والے
زیادہتر لوگوں کی عمر ۴۰ تا ۵۰ سال تھی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اُن کا حافظہ اتنا تیز کیوں ہے
تو بہتیروں نے کہا کہ وہ معلومات کو یاد کرنے کے خاص طریقے استعمال کرتے ہیں۔
قدیم عبرانیوں نے مختلف
چیزوں کی فہرست یاد کرنے کا ایک خاص طریقہ استعمال کِیا۔ مثال کے طور پر زبور کی
کتاب گیتوں پر مشتمل ہے۔ اِن میں سے کئی ایسے گیت ہیں جن کا ہر بند ایک مختلف حرف
سے شروع ہوتا ہے اور اِن بندوں کو عبرانی زبان کی الفبے کے مطابق ترتیب دیا گیا
ہے۔ اِس طریقے کی مدد سے عبرانی لوگ زبور ۱۱۹ کی ۱۷۶
آیتوں کو زبانی یاد کرتے تھے۔
تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ جس
طرح ورزش کرنے سے پٹھے مضبوط ہو جاتے ہیں اِسی طرح یادداشت کو استعمال میں لانے سے
یہ زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ اِس مضمون میں بتائے گئے طریقوں کے ذریعے آپ بھی اپنی
یادداشت میں بہتری لا سکتے ہیں!
یادداشت میں بہتری لانے کے لئے
چند مشورے
▪اپنی
یادداشت کو تیز کرنے کے لئے نئے ہنر، ایک نئی زبان یاپھر موسیقی کے کسی آلے کو
بجانا سیکھیں۔
▪صرف
اہم معلومات کو یاد رکھنے کی کوشش کریں۔
▪معلومات
یاد رکھنے کے مختلف طریقے آزمائیں۔
▪خوب
پانی پئیں۔ جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے ذہن کی صلاحیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
▪نیند
بھر کر سوئیں۔ جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو ذہن معلومات کو محفوظ کرتا ہے۔
▪مطالعہ
کرتے وقت ایسی باتوں کے بارے میں نہ سوچیں جن سے آپ کو ٹینشن ہو۔ ٹینشن کی وجہ سے
جسم میں ایک ایسا ہارمون پیدا ہوتا ہے جو سوچنے کی صلاحیت پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔
▪سگریٹنوشی اور حد سے زیادہ شراب پینے سے گریز کریں۔ حد سے
زیادہ شراب پینے سے جسم میں تھائیامین (وِٹامنبی کی ایک قسم) کی کمی پیدا ہو
سکتی ہے جس کے نتیجے میں یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے۔ سگریٹنوشی سے دماغ میں
آکسیجن کی کمی پیدا ہوتی ہے۔*
[اِس بکس میں درج معلومات انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے رسالے برین
اینڈ مائنڈ سے لی گئی ہے۔
اگر آپ نے مختلف چیزیں
خریدنی ہیں تو آپ اِن کی فہرست کیسے یاد رکھ سکتے ہیں؟ فرض کریں کہ آپ نے ڈبلروٹی،
انڈے، دودھ اور مکھن خریدنا ہے۔ لوکی نامی طریقے کو استعمال کرنے سے تصور میں
اپنی بیٹھک کی سیر کریں اور اِن چیزوں کو اپنی بیٹھک میں پائی جانے والی چیزوں سے
منسلک کریں۔
تصور کریں کہ کُرسی کا گدا ڈبلروٹی ہے
انڈے لیمپ کے نیچے پڑے ہیں
مچھلی کی ٹینکی میں دودھ
بھرا ہے
ٹیوی کی سکرین پر مکھن مَلا ہے
دو باتوں میں جتنا ہی مذاقیہ
یا عجیب تعلق قائم کِیا جائے اُتنا ہی اُنہیں یاد رکھنا آسان ہوگا۔ سودا خریدتے
وقت دوبارہ سے تصور میں اپنی بیٹھک کی سیر کریں۔
بھولنے سے یادداشت تیز رہتی ہے!
فرض کریں کہ ہر بات آپ کی
یادداشت میں محفوظ ہو جاتی، چاہے یہ کتنی ہی غیرضروری کیوں نہ ہوتی۔ اِس صورت
میں آپ کا ذہن فضول معلومات سے کچاکچ بھر جاتا۔ رسالے نیو سائنٹسٹ میں
ایک ایسی عورت کے بارے میں بتایا گیا ہے جو اپنی زندگی میں ہونے والی ہر بات کو
یاد کر سکتی ہے۔ اِس عورت کے ذہن میں ”یادیں مسلسل اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ عمل
اُس کے قابو سے باہر ہے، اُسے بالکل تھکا دیتا ہے اور ایک بوجھ ہے۔“ خوشی کی
بات ہے کہ زیادہتر لوگوں کو اِس مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔ تحقیقدانوں کا کہنا ہے
کہ ہمارا ذہن غیرضروری معلومات کو بُھلا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اُسی رسالے میں
بیان کِیا گیا ہے: ”ہماری یادداشت غیرضروری باتوں کو بھولنے کے عمل سے ہی تیز
رہتی ہے۔ البتہ اِس عمل کی وجہ سے ہم کبھی کبھار اہم باتوں کو بھی بھول جاتے
ہیں۔“